Monday, November 30, 2015

مکہ اور مدینہ کے چند پرندے

مکہ اور مدینہ کے چند پرندے

مکہ اور مدینہ  میں پرندے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ پایا جانا والا پرندہ کبوتر ہے۔ لوگ ان کو وہں سے خرہد کر دانہ وغیرہ بھی ڈالتے ہیںاس طرح سے یہ ایک پالتو جانور کی حیٹیت سے رہتا ہے۔ دوسرا پرندہ ابابیل ہے۔ یہ صبح سویرے یا شام کے وقت اڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ جنگلی پرندہ ہے مگر اس کے گھونسلے مسجد الحرام کی چھتیں وغیرہ ہیں۔

پرندوں کا پودوں سے گہرا تعلق ہے۔ پرندے درختوں پر گھونسلے وغیرہ بناتے ہیں۔ چونکہ مدینہ میں نباتات زیادہ ہیں لہذا ان کی اقسام مدینہ میں زیادہ ہیں۔ چڑیا تودینا بھر میں دکھائی دیتی ہے۔ لہذا مدینہ میں شائد کبوتروں کے بعد دوسرا پرندہ ہے جو کہ آپ کو اپنے ارد گرد دیکھنے کو ملتا ہے۔
Passer domesticus (Female) or Sparrow
واربلرز" پرندوں کا ایسا گروپ ہے کہ جس میں پرندے چھوٹے مگر ان کی آواز بہت میٹھی اور سریلی ہوتی ہے۔ اس لئے ان کو عربی میں "الطّائر المغرّد" کہتے ہیں۔
Sylvia melanocephala
نیچے والی تصویر شائد اوپر والے پرندے کی مادہ کی ہے۔

Sylvia melanocephala ّFemale
اگلا پرندہ بظاہر دیکھنے میںبہت چھوٹا اور بے ضرر سا لگتا ہے مگر یہ اپنی مڑی ہوئی چونچ سے دوسرے پرندوں ، چھوٹے میملز،اور کیڑے مکوڑوں کو شکار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بہت پتھر دل پرندہ ہے۔ یہ نہ صرف ان کا شکار کرتا ہے بلکہ بعض اوقات ان کو کانٹوں وغیرہ میں پھنسا کر رکھتا ہے۔ اسکی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے قصاب گوشت کو لٹکانے کے لئے "ہکس" یعنی کنڈی (حلقہ در) استعمال کرتا ہے ویسی ہی یہ ایکیشیا کے کانٹوں کو استعمال میں لاتا ہے اس لئے اس کو "قصاب پرندۃ" بھی کہتے ہیں۔
Lanius nubicus or Masked Shrike. Third bird is in unknown.




Wednesday, November 25, 2015

مکہ اور مدینہ کی چند نباتات

مکہ اور مدینہ کی چند نباتات

پاکستان سےزیادہ لوگ عمرہ یا حج کے لئے سعودی عرب جاتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کےلئے ان کو مکہ اور مدینہ میں رہنے کا موقعہ ملتا ہے۔ ان شہروں میں ان لوگوں کی نقل و حمل صرف زیارتوں والی جگہوں تک ہی محدود ہوتی ہے۔  دوسرا وقت بھی نہیں ہوتا ہے کہ شہر نوردی کی جائے۔ سارے کا سارا وقت عبادت میں گذارنے کی کوشش کیجاتی ہے۔ اس لئے تمام پودوں کو دیکھ لینا ناممکن ہے۔

پودے ہر قسم کے جغرافیائی ماحول میں پائے جاتے ہیں۔ مکہ کے پتھریلے پہاڑوں سے لیکر ریگستانی صحراؤں میں پودے اگتے نظر آتے ہیں۔ قدرتی طور پر اگنے والے پودوں کے علاوہ جب سے سعودی عرب میں سمندری پانی کو گھریلوں استعمال کے لئے کارآمد بنایا جانے لگا ہے  تب سے شائد پودوں کی دنیا بھی بدل گئی ہے۔

 پودا نمبر 1
سڑکوں کے کنارے سایہ دار درخت اور باڑ نظر آتی ہیں۔ یہ سایہ دار ررخت اور باڑ ایک ہی نوع کے پودے کی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ پودا کہیں اور سے منگوا کر سعودی عرب میں پھیلایا گیاہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ مجھے اس کا نام نہیں معلوم۔
Avenue Tree

Hedge

Leaf Close-up
 پودا نمبر 2
حج کرنے والے حاجی عرفات کے میدان میں ایک دن گذارتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک اس میدان میں شائد درخت ناپید تھے۔ پھر سعودی حکومت نے نیم کے 50000 ہزار پودے وہاں لگائے۔ اب 10-15 فٹ بلند نیم کے پیڑ نظر آتے ہیں۔ مگر نیم کے یہ پودے پوری طرح سے عرفات کے میدان میں پھلے پھولے نہیں۔ اس کے باوجود نئے پودے لگائے جارہے ہیں۔ پودوں کے ماہرین کہتے ہیں دنیا میں کسی بھی جگہ ایک ہی نوع کے ان گنت پودے لگا دینا ٹھیک نہیں ہوتا۔ عرفات کا تو رقبہ 10 مریع کلومیٹر ہے۔ لہذا یہاں مختلف انواع کے سخت جان پودے لگائے جانے چاہیے۔ تاکہ اگر کبھی کوئی بیماری وغیرہ پھیلے تو سارے کا سارا باغ ہی نہ اجڑ جائے بلکہ کچھ تو بچ جائیں۔

پودا نمبر 3
یہ پودا غالبا "عریاں تخم"  پیدا کرنے والے پودوں کے گروپ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس گروپ کے پودے پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں بہتات میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی مثال چیڑ کے درخت کی ہے۔ ان پودوں کے بیج کے باہر پھل جیسا گودا نہیں ہوتا اس لئے ان کو عریاں تخم پیدا کرنے والے پودے کہتے ہیں۔ یہ پودے اپنے نوکیلے یا چھوٹے پتوں کی وجہ سے پانی کو ہوا میں اڑنے سے روکتے ہیں۔ اس طرح یہ پودا خشک آب و ہوا میں پایا جاتا ہے۔

چھلکوں کیصورت میں پتے۔ جونیپرس کی کوئی نوع
جونیپرس کی کوئی نوع

پودا نمبر 4
اروا جوانیکاایک ایس جڑی بوٹی ہے کہ جس پر سفید رنگ کی روئیا٘ں یا بال ہوتے ہیں اسی لئے اس کا دوسرا نام اروا ٹومنٹوسا ہے۔ اس کا خاندان ایمرانتھےسی ہے۔دنیا بھر میں خشک علاقوں بشمول پاکستان کے پایا جاتاہے۔  اس کو چارہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔دوسرا اس کا سب بڑا استعمال یہ ہے کہ جن بنجر علاقوں کو دوبارہ آباد کرنا ہوتا ہے وہاں اس کو اگایاجاتا ہے۔ اس کے نر اور مادہ پھول علیحدی علیحدہ پودوں پر اگتے ہیں۔ نر پھول مادہ پھولوں سے قدرے چھوٹے ہوتے ہیں۔

Aerva javanica Flowers

Aerva javanica plant
پودا نمبر 5
  یہ پودا ایک گھاس ہے۔ گھاس جیسی بھی ہو اس کسے پھول رنگین نہیں ہوتے۔ یعنی ان میں سیپلز اور پیٹلز نہیں ہوتیں۔  پھول بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کو دیکھنے کے  لئے مائیکرو اسکوپ یا عدسی شیشہ چاہیے ہوتا ہے۔ تصویر کو اگر بہت بڑا کر کے دیکھا جائے تو ان کے حصوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔  اس گھاس کے پھول بہت خوبصورت ہیں۔ یہ گھاس خود رو پودا ہے اور بطور چارہ کے استعمال ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں خشک علاقوںمیں اگتا ہے۔
Flowers of Cenchrus cilaris (un-confirmed)
Plants of  Cenchrus cilaris (un-confirmed)
پودا نمبر 6
 اگلا پودا بھی گھاس کے گروپ سے تعلق رکھتا ہے یعنی یہ "مونوکاٹی لیڈن" گروپ سے تعلق رکھتا ہے مگر یہ چھوٹا پودا نہیں بلکہ بہت اونچا درخت بن جاتا ہے۔ اس پر مزیدار پھل یعنی کھجور یا تمر لگتی ہے۔ اس پودے کی وجہ سے ہی گرم تپتے نخلستانوں میں انسان آباد اور زندہ رہ سکے ہیں۔  کیونکہ ان علاقوں میں امیروں اور غریبوں کی ہر موسم  کی پسندیدہ خوراک کھجور ہی ہے۔ اس کا ذکر پچھلےایک مضمون میں ہو چکا ہے۔
Phoenix dactylifera
سعودی عرب کا قومی نشان یہی پیڑ ہے۔

پودا نمبر 7
پام کے درخت مدینہ منورہ  میں مسجد نبوی کے ساتھ ایک پارک میں موجود ہیں ۔اس پارک کا نام" سقیفہ بنی ساعد ۃ" ہے۔ سقیفہ بنی ساعدہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں مدینہ کی ، ، وہ عمارت تھی جہاں قبیلہ "بنی ساعدہ بنو خزرجیۃ" اپنے اجلاس کیا کرتا تھا۔ "سقیفہ"  اس چوپال کو کہتے ہیں جہاں گاوں محلے کے لوگوں کی بیٹھک لگتی ہے۔سقیفہ بنو ساعدہ کے شمال میں ایک کنواں بئر بضاعۃ کے نام سے مشہور تھا۔ اس جگہ کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ یہی پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیِ عنہ کو  خلیفہ چنا گیا تھا۔

اس پارک میں ان دونوں طرح کے پام کے درخت کی قطاریں ہیں۔ ہر قطار میں دونوں طرح کے درخت موجود ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام "واشنگٹونیا روبسٹا" ہے۔ بہت قدآور درخت ہے۔ اس کا تنا پرانے پتوں کے اترنے کے بعد ہموار ہو جاتا ہے۔ تیسری خوبی یہ ہے کہ پرانے پتے خشک ہونے کے بعد فورارنہیں جھڑ جاتے بلکہ کچھ عرصہ تک سبز پتوں کے نیچے ہی لٹکے رہتے ہیں۔

Washingtonia robusta
پودا نمبر 8
 دوسری طرح کا پام درج بالا پام کے درخت سے ذرا چھوٹاہوتا ہے۔ اسکا تنا کھجورکے درخت کی طرح کا ہوتا ہے یعنی ناہموار۔ پرانے پتوں کی ڈنڈیوں کے سرے تنے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں اور پتہ اتر جاتا ہے۔ تیسرا یہ پام اکثر اپنے تنے سے دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس طرح یہ پام منفرد ہوجاتاہے۔یہ پام خشک علاقوں میں خوب پھلتا پھولتاہے۔
Hyphaene thebaica
    اب اگر کھجور کے درخت کا ان درختوں سے موازنہ کریں تو تینوں طرح کے پام کے درختوں کو پہچاننا بہت آسان ہے۔ کھجورکے پتے ان دونوں طرح سے مختلف ہیں۔
Phoenix dactylifera
کہتے ہیں کہ "ہائیفینی داباِیکا" کا پھل کھایا جا سکتا ہے۔ واللہ علم باالصواب ۔
Hyphaene thebaica fruit

پودا نمبر 9
یہ آ رائیشی بیل تقریباہر ملک میںاگائی جاتی ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے اسکے پھول جب کھلتے ہیں تو سفید ہوتے ہیں اور بعد میں اپنا رنگ بتدریج بدلتے ہیں اور گلابی ہو جاتے ہیں۔ ایسا غالبا درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پھول خوشبودار بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر دیکھا جاتا ہے۔
Quisqualis indica Withering Flowers

Quisqualis indica Flowers White and Pink
پودا نمبر 10
  اس پودے کا اردو میں نام "آک" ہے۔ اس کی نئی شاخوں پر سفید روئیں ہوتی ہیں اس لئے عام زبان میں انگریزی میں اس کو"کاپوک ٹری" بھی کہتے ہیں۔ لفظ "کاپوک" ہر اس پودے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس پر سفید روئیں ہوں مثلا اوپر "اروا جوانیکا" کو بھی عام زبان میں "کاپوک بش" کہتے ہیں۔ مگر "آک" کا پودا زہریلا پودا ہے۔ اس کے اندر  زہریلا دودھیا پانی ہوتا ہے۔ ا مثلا لوگ جانوروں کا شکار کرنے کے لئے اپنے تیروں پر اس کے زہر کو اسعتعمال کرت تھے۔ اس کا زہر دل کی رفتار کو بڑھا دیتا ہے جس سے موت واقع ہوجاتی ہے۔ بعض مریضوں میں دل کے پٹھے اس قدر کمزور ہو جاتے ہیں کہ وہ خون کو پوری طرح سے دل سے نہیں نکال سکتے۔ جس کی وجہ سے خون دل سے نکلتا نہیں اور مزید خود دل میں آتا رہتا ہے اور دل پھول ہوا محسوس ہوتا ہے اس کا نام "کنجیسٹو ہارٹ فیلئیر" ہے۔ ایسی حالت میں ایسی دوائیں استعمال میں لائی جاتی ہیں مگر  ان کے زہریلے اثرات ان مریضوں میں بھی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ نوٹ: کوئی بھی دوائی یا ٹوِٹکا خود سے نہ لیں۔ موت واقع ہو سکتی ہے۔

Calotropis procera Plant

Calotropis procera Flowers

Calotropis procera Fruit
پودا نمبر 11

 یہ پودا اپنی خشک حالت میں مکہ اور مدینہ کی تمام دوکانوں پر ملے گا۔ اگر آپ اس کے بارے میں نہیں جانتے اور دوکاندار سے پوچھیں تو وہ اس کا نام "مریم کی بوٹی" بتائے گا۔  پہلے تو یہ مذاق لگتا ہے مگر  لٹریچر کو دیکھیں تو اس کا مقامی نام یہی ہے ۔ لوگ اس کو دواکے طور پر استعمال کرتے ہیں۔  واللہ علم بالصواب۔ اس پودے کی ایک خوبی یہ ہے کہ جب یہ سوکھ جاتا ہے تو تمام شاخیں اندر کی طرف مڑ کر پودے کو ایک گیند نما شکل دے دیتی ہیں۔ بارش برسنے پر وہ دوبارہ سیدھی ہو جاتی ہیں۔  اگر اس کو خشک حالت میں پانی میں ڈبویا جائے تو ایسا ہی کرتا ہے۔ یہ عمل کئی بار دھرایا جاسکتا ہے۔
Anastatica hierochuntica

پودا نمبر 12
یہ پودا پودینہ، لیونڈر،نیازبو اور تلسی کے خاندان سے ہے۔ یہ خاندان خوشبودار جڑی بوٹیوں کا خاندان کہاجاسکتاہے۔ نیچےوالی تصویر نیاز بو یا تلسی کے پودے کی ہے۔  ان پودوں کے پھول سفید ہوتے ہیں۔ اس پودے کی تصویر  سقیفہ بنی ساعد ۃ" میں اتاری گئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ باقی کی جگہوں پر بھی اس کو کاشت کیا جاتا ہوں۔
Ocimum spp.
پاکستان میں پودینے کی چٹنی بنائی جاتی ہے۔ اسی طرح باقی کے پودوں کے مختلف استعمال ہیں۔

پودا نمبر 13
لینٹانا کمارا ایک ایسی جھاڑی ہے جو کہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔ اسلام آباد پر مارگلہ کی پہاڑیوں پر  بکثرت پائی جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ دوسری انواع کے پودوں کو روک کر ان کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ اس کا نقصان ہے۔ مگر اس کے پھول تتلیوں کو بہت پسند ہیں۔ 
سقیفہ بنی ساعد ۃ میں یہ خوبصورت پھول موجود تھے۔
Lantana camara
پودا 14
یہ پودا ایک کانٹے دار درخت ہے۔ پاکستان میں بھی بنجر ، ویران اور خشک علاقوں میں پایا جاتا ہے۔عربی میں اس کو "سدر"،"سادر"،"نبق"  وغیرہ کہتے ہیں۔ اس درخت سے تین فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا پھل غذائیت سے بھر پور ہے۔  اس کے پھولوں سے بننے والا شہد اپنی علیحدہ تاثیر رکھتا ہے۔ اس کا اپنا ذائقہ اور اپنی خوشبو ہے۔ اس سے بنجر اور بے آباد زمینوں  میں شجر کاری کی جاتی ہے۔ اسکے کانٹوں کیوجہ سے اس کو "باڑ" کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مکہ اور مدینہ میں عام پایا جاتا ہے۔ یہ ان چند پودوں میں سے ہے جن کا اصلی وطن عرب کی زمین ہے اور یہ آج بھی درآمد کئے گئے پودوں میں موجود ہیں۔
Ziziphus spina-christi

اردو میں اس کو بیری کا درخت کہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ بے آباد زمینوں میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی لوگ اس کا پھل کھاتے ہیں۔

عیسائی عقائد کے مطابق جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیاتو اس وقت ایک کانٹے دار جھاڑی کا تاج بھی پہنایا گیاتھا۔ سدر کا سائنسی نام اسی خیال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے مطابق آپ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا اور آپ کا ظہور قیامت کے نزدیک ہوگا۔

مسجد قبا مدینہ منورہ کے پاس دو بیری کے درخت موجود ہیں۔ ان پر چڑیوں کے کئی گھونسلے موجود ہیں۔ ایک گھونسلے پر ایک چڑیا اپنے گھونسلے کو بنانے میں مصروف تھی۔ شاَئد درخت کے کانٹے اس کو شکاریوں سے کسی قسم کا تحفظ دیتے ہوں؟
 
پودا نمبر 15

ایک اور پودا مدینہ میں اپنی بہار دکھا رہا تھا۔ اس کا نام مجھے معلوم نہ ہو سکا۔اگر آپ کو معلوم ہو تو ضرور مطلع کریں۔

نامعلوم نوع
پودا نمبر 16 اور 17
 اس تصویر میں دو ایسے پودے دکھائی دے رہے ہیں جو کہ پاکستان میں بہت عام ہیں مگر آپ ان کو مدینہ منورہ میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
1. Sansevieria  sp. 2. Bougainvillea sp.

پودا نمبر 18 اور 19
گھاس کی یہ دو انواع کے پھول بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اگر یہ دونوں انواع ساتھ ساتھ نہ اگ رہی ہوتیں تو ایک ہی طرح  گھاس دکھائی دیتیں۔ اسی لئے گھاسوں کی شناخت ایک مشکل کام ہے اور اس کے لئے ان کے باریک باریک پھولوں کو خوردبین سے دیکھنا پڑتا ہے۔
گھاس کی دو انواع۔۔۔نام نامعلوم۔

پراؤڈ پاکستانی
مکہ اور مدینہ میں دنیا بھر کی طرح پاکستانی مصنوعات بھی ملتی ہیں۔

ختم شد




Saturday, November 21, 2015

برڈ اسپائیک یا پرندوں کو روکنے والے کانٹے

برڈ اسپائیک یا پرندوں کو روکنے والے کانٹے

بعض پرندے بہت مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ وہ بیٹھیں کر کر کے گند مچا دیتے ہیں۔ مثلا نیچے کی تصویر میں سبز شیڈ پر بیٹھیں شیڈ پر نظر آرہی ہیں۔

کبوترمسجد الحرام کی جالیوں کے قریب آرام کررہے ہیں۔


جہاں اسپائیک نہیں وہاں کبوتر موجود۔

اس گندگی سے پچنے کے لئے انسان نے کئی چیزیں ایجاد کر لی ہیں۔ ان میں سے ایک "برڈ اسپائیک" ہے۔ یہ اسپائیک پرندے کا کسی جگہ پر بیٹھنا ناممکن بنا دیتے ہیں۔ جب پرندے نہیں بیٹھیں گے تو بیٹھیں گے نہیں۔ جب بیٹھیں نہیں ہونگی تو گندگی بھی نہیں ہو گی۔

بیت اللہ شریف کے صرف اس حصے پر اسپائیک موجود  ہیں
مکہ معظمہ میں حرم پاک میں کئی جگہ یہ اسپائیک لگی نظر آتی ہیں۔ آجکل جو عارضی مطاف کے لئے پل بنے ہوئے ہیں ان کو ستونوں سے لٹکانے کے لئے لوہے کی موٹی موٹی تاریں استعمال ہو ئی ہیں۔ ان پر یہ نظر آتی ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو حرم پاک میں بے شمار کبوتر موجود ہیں اور وہ ان تاروں پر بیٹھ کر نیچے نمازیوں کے کپڑے اور مطاف کو گندہ کرتے رہیں گے۔

فانوسوں  پر لگے ہوئے اسپائیک Chandlier
یہ ایک ایسی ایجاد ہے کہ جس کے بارے میں  ہمارے ہاں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ شائد حج یا عمرہ کرکے لوٹنے والے بہت سے لوگ بھی ان کے بارے میں نہ جانتے ہوں۔مگر یہ مطاف سے باہر مسجد الحرام کے ارد گرد کی سڑگوں پر عمارتوں پر موجود ہیںاور ان کا مقصد یہی ہے کہ نمازیوں کے کپڑے اور زمین گندی نہ ہو۔

حرم وہ جگہ ہے جہاں کسی پودے کو توڑنا یا کسی جانور کا شکار کرنا گناہ ہے۔ صرف فتح مکہ کے لئے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے اس جگہ جہاد کی اجازت دی تھی اور فتح مکہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مکہ میں جنگ و جدل سے منع کردیا تھا۔ لہذا اس جگہ قتل و غارت کرنا سخت  گناہ ہے۔ گھاس وغیرہ بھی نہیں توڑی جا سکتی۔  غرض ہر جاندار کو "امان" ہے۔
کبوتر مسجد الحرام کی چھت ہر بےفکر دانہ چگ رہے ہیں۔
 

Friday, November 20, 2015

تمر

تمر یعنی کھجور

Anas bin Malik narrated:
"The Messenger of Allah would break the fast with fresh dates before performing Salat. If there were no fresh dates then (he would break the fast) with dried dates, and if there were no dried dates then he would take a few sips of water."
 Jami` at-Tirmidhi 696
Book 8, Hadith 15
باب مَا جَاءَ مَا يُسْتَحَبُّ عَلَيْهِ الإِفْطَارُ 
كتاب الصوم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم

کھجور کے درخت کو عربی میں "نخل" اور کھجور کو "تمر" کہا جاتا ہے۔ کھجور کی جینس میں بارہ کے قریب انواع ہیں مگر کھجور کا پودا پیچاننا بہت آسان ہے۔
اسکے پتے گہرے سبز رنگ کے ہوتے ہیں اور سبز رنگ چمکدار نہیں ہوتا۔
درخت بہت اونچا یعنی 20 میٹر تک ہوسکتا ہے۔ اس کا تنا موٹا اور سیدھا ہوتا ہے۔
اس پر آف -شوٹس یعنی مزید شاخیں اگ سکتی ہیں۔یہ شاخیں زمین سے بڑے تنے کے ساتھ یا پھر تنے پر زمین سے باہر کسی بھی جگہ بن سکتی ہیں۔

کھجور کی ہزاروں ورائٹیز ہیں۔


یعنی پھل کی شکل و شبہات سے پھل کے بارے میں اندازہ کرنا۔ Physiognomy
پہلے ہفتے اس کا پھل سفید کریمی رنگ کا ہوتا ہے اور" ہاباباؤک" کہلاتاہے۔ 5-9 ہنفتے تک کا پھل سبز ہوتا ہے اور" کیمری"  یا "خیمری" کہلاتا ہے۔ 17 ہفتے میں جا کر پھل سرخ یا پیلا ہونا شروع ہوتا ہے اور" کلمری" کہلاتا ہے۔ 19-25 ہفتے میں پھل سرخ یا پیلا ہی ہوتا ہےمگر  "خللال" کہلاتا ہے۔ 26-28 ہفتے میں پھل نسواری رنگ اختیار کر لیتا ہے اور "رطب " کہلاتا ہے۔ 29 ہفتے میں پھل "تمر" یا کھجور کہلاتاہے۔


Burhee Khalal Dates
Hababauk
Kimri
Khalaal
Rutab
Tamr



ہاباباؤک کی اصطلاح مادہ پھول اور پولی نیشن کے عمل کے بعد کے پھول کے لئے استعمال ہوتی ہے جب اس کا رنگ کریمی سفید ہوتا ہے۔

کیمری مرحلے میں پھل کا سائز، وزن،اس میں کاربوہائڈریٹس اور پانی ایک دم سے بڑھنے لگتے ہے اور وہ سبز ہو جاتا ہے۔ اس عمر میں پھل میں 85 فی صد پانی ہوتا ہے۔  ایسا پھل کھانے کے قابل نہیں ہوتا۔ یہ مرحلہ بیر کے سائز کے پھل سے لیکر مکمل سبز کھجور کے سائز تک کی ہے۔

جب پھل اپنی ورائٹی کے لحاظ سے پیلا یا سرخ ہونے لگتا ہے تو پھر اس میں درج بالا چیزوں میں مزید اضافہ نہیں ہوتا اور پھل سائنسی حساب سے پک چکا ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ 3-5 ہفتوں پر محیط ہوتا ہے۔ کئی اقسام مثلا برہی، حلاوی، حیانی، وغیرہ اسی مرحلہ پر کھائی جاتی ہیں۔ اس مرحلے پر پھل رس سے بھرا اور میٹھا ہوتا ہے اور ترش نہیں ہوتا۔

 اس کے بعد اگلے مرحلے یعنی خلال  میں سوکروز چینی کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور پھل میٹھا ہو جاتا ہے مگر پھل کے وزن میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ پھل کے اندر پانی کی مقدار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ ٹیننز نامی مرکبات ٹھوس جاتے ہیں اور پھل کھانے منہ خشک نہیں ہوتا۔ منہ کے خشک ہونے کی کیفیت جاپانی املوک جیسی  ہوتی ہے اور رنگ خرمانی کے پھل جیسا ہوسکتا ہے۔ ایسا پھل صنعتی لحاظ سے تیار پھل ہے۔
اس کے اگلے مرحلے میں پھل ایک طرف سے بھورا  یا سیاہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس مرحلے کو رطاب کہتے ہیں اور اس مرحلے میں پانی مزید خشک ہوتا ہے۔ پھل مزید میٹھا ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کا گودا نرم ہوتا جاتاہے۔ اس مرحلے پر پانی کی مقدار 35 فیصد ہوتی ہے اور پھل کو تازہ پھل کہہ کر بیچا جاتا ہے۔ لیکن اگر پھل کو درخت سے نہ اتارا جائے اور درخت پر مزید پکنے دیا جائے تو اس کے اندر پانی کی مقدار مزید کم ہو کر  24-25 فیصد رہ جاتی ہے اور ایسا پھل "تمر" کہلاتاہے  اس پانی کی مقدار کے ساتھ کھجور کو کافی عرصے تک کھایا جاسکتا ہے یعنی وہ خراب نہیں ہوتی۔ یہ محفوظ کرنے کا ایک قدرتی طریقہ ہے۔ تمر کے علاوہ کسی بھی حالت میں کھجور زیادہ عرصہ تک نہیں رہ سکتی۔ وہ اپنے پانی کی وجہ سےگل سڑ جاتی ہے۔

پس میٹھی خلال، رطب اور تمر تجارتی لحاظ سے کھجور کی حالتیں ہیں ۔ تمر کھجور اپنی ورائٹی کے لحاظ سے سائز، وزن اور رنگ رکھتی ہے۔ بیت زیادہ خشک کھجور کے اندر 5-10 فیصد پانی رہ جاتا ہے اور وہ ڈیزرٹ ڈیٹس کے نام سے ملتی ہے۔ شائد ان کو ہمارے ہاں چھوہارا کہتے ہیں۔

http://www.fao.org/docrep/t0681e/t0681e03.htm
http://www.fao.org/docrep/006/y4360e/y4360e05.htm

میڈجول یا میجہول بڑے سائز کی کھجور کا نام ہے۔  اس کا ذائقہ بہترین ہوتا ہے۔ اس کی گھٹلی اس کی بہترین پہچان ہے۔ اس کی گھتلی پر "پنکھ" نماابھار ہوتے ہیں۔ یہی اس کی اصلی پہچان ہے۔ کھجورں کےاندر جب پانی خشک ہوتا ہے تو کھجور کا گودا سکڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے کھجور کا چھلکا گودے سے علیحدہ ہو سکتا ہے۔ برہی ورائٹی میں تو پکی ہوئی کھجور کا چھلکا تو پھل کے ساتھ صرف ایک طرف سے برائے نام جڑا ہوتا ہے۔ برہی خلال کھجور شاخوں  پر لگے ہوئےہی مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہے۔ ان کے اندر ٹینن کی زیادہ مقدار کو وجہ سے جاپانی املوک کی طرح منہ خشک ہوتا ہے۔
Brahee Khalal
Fully Mature Dates with Loose Skin


 جب لوگ قافلوں میں سفر کرتے تھے تو اپنے ساتھ تواانائی سے بھرپور کھجوریں لیکر چلتے تھے، تھوڑی سی کھجوریں فوری اور بھرپور توانائی اور غذائیت مہیا کرتی ہیں۔  آجکل پہاڑوں پر ہائیکنگ کرنے والے انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کھجوروں کے ٹکڑوں کو خشک میوہ جات میں ملا کر "ٹریل سنیک" بنا لیتے ہیں۔

Wednesday, November 18, 2015

مسخوطہ: مشرق مغرب شمال اور جنوب

مسخوطہ: مشرق مغرب شمال اور جنوب

پچھلا مضمون ذرائع نقل و حمل کے بارے  میں تھا۔ مسخوطہ حاجیوں کے لئے خاص بسوں کا اڈہ ہے۔ مگر یہ جگہ کچھ زیادہ اہم ہے۔ اڈہ کے سامنے پولیس کی چوکی ہے ۔ اڈہ حرم کو جانے والی ٹنل یعنی سرنگ کے سرے پر واقع ہے۔  اس اڈے کے سامنے ایک کار پارکنگ بھی ہے۔ یہ کارپارکنگ ان حاجیوں کے لئے ہے جو کہ اپنی اپنی گاڑیوں پر حج کرنے کےلئے آتے ہیں۔  کسی بھی پرائیویٹ گاڑی کو حج کے ایام میں اس سرنگ سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لہذا لوگ اپنی گاڑیاں یہیں کھڑی کر کے چلے جاتے ہیں۔ یعنی حج پر آنے والے سب لوگ سرکاری بس کے ذریعے ہی جاتے ہیں۔ البتہ پرائیویٹ  ٹکیسیوں کو حجاج کی سہولت کے لئے انے جانے کی اجازت ہوتی ہے۔

کار پارکنگ
اب جب کہ پچھلے مضمون میں اور اس مضمون میں ذرائع نقل حمل کی  جو تصویر ٹکڑوں میں پیش کی ہے اس کو جوڑ کر ایک مکمل تصویر بناتے ہیں۔ اس تصویر کو 'پین او راما' کہت ہیں۔

سات تصویوون کو جوڑنے کا طریقہ
سات تصویروں سے مکمل پین او راما
 

Tuesday, November 17, 2015

حاجیوں کے لئے ٹراسپورٹ (للنقل)

حاجیوں کے لئے ٹرانسپورٹ--- للنقل

اندرون شہر یعنی مکہ اور بیرون شہر یعنی مکہ سے مدینہ اور مدینہ سے جدہ  وغیرہ کے لئے سعودی حکومت نے بسوں کا بہترین انتظام کیا ہوتا ہے۔  یہ ٹرانسپورٹ فری ہوتی ہے۔ 

اندرون شہر

حاجی اپنی رہائشگاہوں سے براہ راست مسجد الحرام نہیں جا سکتے۔ مسجد جانے کے لئے ان کو پہلے "مسخوطہ" جانا ہو گا۔ مسخوطہ سے سعودی حکومت کی بسیں حاجیوں کو مسجد لیکر جاتی ہیں اور حرم سے واپس بھی یہیں تک لاتی ہیں۔ ہر بلڈنگ کے باہر اس کا بس اسٹاپ نمبر لکھا ہوتا ہے۔ حاجی مسخوطہ جانے کے لئے اور مسخوطہ سے واپس اپنی رہائش گاہ آنے کےلئے اپنی بلڈنگ کے نمبر والی ہی بس استعمال کرتے ہیں۔

بلڈنگ نمبر اور بس نمبر
بسیں تمام نمازوں کے لئے حجاج کو مسخوطہ لیکر جاتی ہیں اور حاجیوں کو مسخوطہ جانے کےلئے کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ قریباہر وقت ایک آدھ بس بلڈنگ کے باہر حاجیوں کے لئے موجود ہوتی ہے۔ جیسے ہی بس میں حاجیوں کی معقول تعداد ہو جاتی ہے  بس چل پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ انتظامیہ بھی ان کو ضرورت کے حساب سے روانہ کرتی رہتی ہے۔
بس جایوں کا انتظار کر رہی ہے۔
ساری پاکستانی رہائیشگاہوں کے حجاج مسخوطہ پہنچتے ہیں اور یہاں سے سعودی گورنمنٹ کی بسیں ان کو حرم تک لیکر جاتی ہیں۔ یہاں بھی بسوں کی کمی نہیں ہوتی اور ہر چند سیکنڈز کے بعد بیسں جاتی اور آتی رہتی ہیں۔

مسخوطہ پر کھڑی بس
مسخوطہ سے بسیں خاص حجاج کےلئے ہی چلتی ہیں اور ان کا مقصد حجاج کو "صلوۃ" یعنی نماز کے لئے لیکر جانا اور واپس لانا ہوتا ہے۔

مسخوطہ سے مسجد الحرام کا فاصلہ چند منٹوں کا ہے اور یہ سارا سفر ایک ٹنل  یعنی سرنگ کے اندر ہوتا ہے۔
ٹنل سے بسیں مسجد الحرام سے واپس آر ہی ہیں۔
مسخوطہ کا ماحول دیکھ کر مکہ کی زمینی ساخت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سارے کا سار علاقہ پتھریلا اور بنجر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس سرزمین کو تیل کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے  بلکہ آب زم زم جیسا انمول اور متبرک پانی بھی جاری کر رکھا ہے۔

بیرون شہر

 حاجی جدہ سے مکہ یا مدینہ جاتے ہیں اور حاجی مکہ سے مدینہ بھی جاتے ہیں ۔ ان کا یہ سفر بھی بسوں میں ہی ہوتا ہے۔ ان بسوں میں بھیٹر نہیں ہوتی اور ان بسوں میں سامان لیجانے کی بھی صلاحیت ہوتی ہے۔
بسیں مدینہ منورہ جانے کے لئے تیار
سعودی حکومت ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ حاجیوں کے لئے رہنے سہنے کی جگہیں صاف ستھری رہیں۔ مگر کمی حاجی صاحبان کی طرف سے رہ جاتی ہے۔ کم لوگ ہی کچرے کو کوڑے دان میں ڈالنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔
اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں۔

+