مکہ اور مدینہ کی چند نباتات
پاکستان سےزیادہ لوگ عمرہ یا حج کے لئے سعودی عرب جاتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کےلئے ان کو مکہ اور مدینہ میں رہنے کا موقعہ ملتا ہے۔ ان شہروں میں ان لوگوں کی نقل و حمل صرف زیارتوں والی جگہوں تک ہی محدود ہوتی ہے۔ دوسرا وقت بھی نہیں ہوتا ہے کہ شہر نوردی کی جائے۔ سارے کا سارا وقت عبادت میں گذارنے کی کوشش کیجاتی ہے۔ اس لئے تمام پودوں کو دیکھ لینا ناممکن ہے۔
پودے ہر قسم کے جغرافیائی ماحول میں پائے جاتے ہیں۔ مکہ کے پتھریلے پہاڑوں سے لیکر ریگستانی صحراؤں میں پودے اگتے نظر آتے ہیں۔ قدرتی طور پر اگنے والے پودوں کے علاوہ جب سے سعودی عرب میں سمندری پانی کو گھریلوں استعمال کے لئے کارآمد بنایا جانے لگا ہے تب سے شائد پودوں کی دنیا بھی بدل گئی ہے۔
پودا نمبر 1
سڑکوں کے کنارے سایہ دار درخت اور باڑ نظر آتی ہیں۔ یہ سایہ دار ررخت اور باڑ ایک ہی نوع کے پودے کی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ پودا کہیں اور سے منگوا کر سعودی عرب میں پھیلایا گیاہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ مجھے اس کا نام نہیں معلوم۔
Avenue Tree |
Hedge |
Leaf Close-up |
پودا نمبر 2
حج کرنے والے حاجی عرفات کے میدان میں ایک دن گذارتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک اس میدان میں شائد درخت ناپید تھے۔ پھر سعودی حکومت نے نیم کے 50000 ہزار پودے وہاں لگائے۔ اب 10-15 فٹ بلند نیم کے پیڑ نظر آتے ہیں۔ مگر نیم کے یہ پودے پوری طرح سے عرفات کے میدان میں پھلے پھولے نہیں۔ اس کے باوجود نئے پودے لگائے جارہے ہیں۔ پودوں کے ماہرین کہتے ہیں دنیا میں کسی بھی جگہ ایک ہی نوع کے ان گنت پودے لگا دینا ٹھیک نہیں ہوتا۔ عرفات کا تو رقبہ 10 مریع کلومیٹر ہے۔ لہذا یہاں مختلف انواع کے سخت جان پودے لگائے جانے چاہیے۔ تاکہ اگر کبھی کوئی بیماری وغیرہ پھیلے تو سارے کا سارا باغ ہی نہ اجڑ جائے بلکہ کچھ تو بچ جائیں۔
پودا نمبر 3
یہ پودا غالبا "عریاں تخم" پیدا کرنے والے پودوں کے گروپ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس گروپ کے پودے پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں بہتات میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی مثال چیڑ کے درخت کی ہے۔ ان پودوں کے بیج کے باہر پھل جیسا گودا نہیں ہوتا اس لئے ان کو عریاں تخم پیدا کرنے والے پودے کہتے ہیں۔ یہ پودے اپنے نوکیلے یا چھوٹے پتوں کی وجہ سے پانی کو ہوا میں اڑنے سے روکتے ہیں۔ اس طرح یہ پودا خشک آب و ہوا میں پایا جاتا ہے۔
چھلکوں کیصورت میں پتے۔ جونیپرس کی کوئی نوع |
جونیپرس کی کوئی نوع |
پودا نمبر 4
اروا جوانیکاایک ایس جڑی بوٹی ہے کہ جس پر سفید رنگ کی روئیا٘ں یا بال ہوتے ہیں اسی لئے اس کا دوسرا نام اروا ٹومنٹوسا ہے۔ اس کا خاندان ایمرانتھےسی ہے۔دنیا بھر میں خشک علاقوں بشمول پاکستان کے پایا جاتاہے۔ اس کو چارہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔دوسرا اس کا سب بڑا استعمال یہ ہے کہ جن بنجر علاقوں کو دوبارہ آباد کرنا ہوتا ہے وہاں اس کو اگایاجاتا ہے۔ اس کے نر اور مادہ پھول علیحدی علیحدہ پودوں پر اگتے ہیں۔ نر پھول مادہ پھولوں سے قدرے چھوٹے ہوتے ہیں۔
Aerva javanica Flowers |
Aerva javanica plant |
پودا نمبر 5
یہ پودا ایک گھاس ہے۔ گھاس جیسی بھی ہو اس کسے پھول رنگین نہیں ہوتے۔ یعنی ان میں سیپلز اور پیٹلز نہیں ہوتیں۔ پھول بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کو دیکھنے کے لئے مائیکرو اسکوپ یا عدسی شیشہ چاہیے ہوتا ہے۔ تصویر کو اگر بہت بڑا کر کے دیکھا جائے تو ان کے حصوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس گھاس کے پھول بہت خوبصورت ہیں۔ یہ گھاس خود رو پودا ہے اور بطور چارہ کے استعمال ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں خشک علاقوںمیں اگتا ہے۔
پودا نمبر 6
اگلا پودا بھی گھاس کے گروپ سے تعلق رکھتا ہے یعنی یہ "مونوکاٹی لیڈن" گروپ سے تعلق رکھتا ہے مگر یہ چھوٹا پودا نہیں بلکہ بہت اونچا درخت بن جاتا ہے۔ اس پر مزیدار پھل یعنی کھجور یا تمر لگتی ہے۔ اس پودے کی وجہ سے ہی گرم تپتے نخلستانوں میں انسان آباد اور زندہ رہ سکے ہیں۔ کیونکہ ان علاقوں میں امیروں اور غریبوں کی ہر موسم کی پسندیدہ خوراک کھجور ہی ہے۔ اس کا ذکر پچھلےایک مضمون میں ہو چکا ہے۔
یہ پودا ایک گھاس ہے۔ گھاس جیسی بھی ہو اس کسے پھول رنگین نہیں ہوتے۔ یعنی ان میں سیپلز اور پیٹلز نہیں ہوتیں۔ پھول بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کو دیکھنے کے لئے مائیکرو اسکوپ یا عدسی شیشہ چاہیے ہوتا ہے۔ تصویر کو اگر بہت بڑا کر کے دیکھا جائے تو ان کے حصوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس گھاس کے پھول بہت خوبصورت ہیں۔ یہ گھاس خود رو پودا ہے اور بطور چارہ کے استعمال ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں خشک علاقوںمیں اگتا ہے۔
Flowers of Cenchrus cilaris (un-confirmed) |
Plants of Cenchrus cilaris (un-confirmed) |
اگلا پودا بھی گھاس کے گروپ سے تعلق رکھتا ہے یعنی یہ "مونوکاٹی لیڈن" گروپ سے تعلق رکھتا ہے مگر یہ چھوٹا پودا نہیں بلکہ بہت اونچا درخت بن جاتا ہے۔ اس پر مزیدار پھل یعنی کھجور یا تمر لگتی ہے۔ اس پودے کی وجہ سے ہی گرم تپتے نخلستانوں میں انسان آباد اور زندہ رہ سکے ہیں۔ کیونکہ ان علاقوں میں امیروں اور غریبوں کی ہر موسم کی پسندیدہ خوراک کھجور ہی ہے۔ اس کا ذکر پچھلےایک مضمون میں ہو چکا ہے۔
Phoenix dactylifera |
سعودی عرب کا قومی نشان یہی پیڑ ہے۔
پودا نمبر 7
پام کے درخت مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے ساتھ ایک پارک میں موجود ہیں ۔اس پارک کا نام" سقیفہ بنی ساعد ۃ" ہے۔ سقیفہ بنی ساعدہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں مدینہ کی ، ، وہ عمارت تھی جہاں قبیلہ "بنی ساعدہ بنو خزرجیۃ" اپنے اجلاس کیا کرتا تھا۔ "سقیفہ" اس چوپال کو کہتے ہیں جہاں گاوں محلے کے لوگوں کی بیٹھک لگتی ہے۔سقیفہ بنو ساعدہ کے شمال میں ایک کنواں بئر بضاعۃ کے نام سے مشہور تھا۔ اس جگہ کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ یہی پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیِ عنہ کو خلیفہ چنا گیا تھا۔
اس پارک میں ان دونوں طرح کے پام کے درخت کی قطاریں ہیں۔ ہر قطار میں دونوں طرح کے درخت موجود ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام "واشنگٹونیا روبسٹا" ہے۔ بہت قدآور درخت ہے۔ اس کا تنا پرانے پتوں کے اترنے کے بعد ہموار ہو جاتا ہے۔ تیسری خوبی یہ ہے کہ پرانے پتے خشک ہونے کے بعد فورارنہیں جھڑ جاتے بلکہ کچھ عرصہ تک سبز پتوں کے نیچے ہی لٹکے رہتے ہیں۔
پودا نمبر 8
دوسری طرح کا پام درج بالا پام کے درخت سے ذرا چھوٹاہوتا ہے۔ اسکا تنا کھجورکے درخت کی طرح کا ہوتا ہے یعنی ناہموار۔ پرانے پتوں کی ڈنڈیوں کے سرے تنے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں اور پتہ اتر جاتا ہے۔ تیسرا یہ پام اکثر اپنے تنے سے دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس طرح یہ پام منفرد ہوجاتاہے۔یہ پام خشک علاقوں میں خوب پھلتا پھولتاہے۔
اب اگر کھجور کے درخت کا ان درختوں سے موازنہ کریں تو تینوں طرح کے پام کے درختوں کو پہچاننا بہت آسان ہے۔ کھجورکے پتے ان دونوں طرح سے مختلف ہیں۔
کہتے ہیں کہ "ہائیفینی داباِیکا" کا پھل کھایا جا سکتا ہے۔ واللہ علم باالصواب ۔
پودا نمبر 9
یہ آ رائیشی بیل تقریباہر ملک میںاگائی جاتی ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے اسکے پھول جب کھلتے ہیں تو سفید ہوتے ہیں اور بعد میں اپنا رنگ بتدریج بدلتے ہیں اور گلابی ہو جاتے ہیں۔ ایسا غالبا درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پھول خوشبودار بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر دیکھا جاتا ہے۔
پودا نمبر 10
اس پودے کا اردو میں نام "آک" ہے۔ اس کی نئی شاخوں پر سفید روئیں ہوتی ہیں اس لئے عام زبان میں انگریزی میں اس کو"کاپوک ٹری" بھی کہتے ہیں۔ لفظ "کاپوک" ہر اس پودے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس پر سفید روئیں ہوں مثلا اوپر "اروا جوانیکا" کو بھی عام زبان میں "کاپوک بش" کہتے ہیں۔ مگر "آک" کا پودا زہریلا پودا ہے۔ اس کے اندر زہریلا دودھیا پانی ہوتا ہے۔ ا مثلا لوگ جانوروں کا شکار کرنے کے لئے اپنے تیروں پر اس کے زہر کو اسعتعمال کرت تھے۔ اس کا زہر دل کی رفتار کو بڑھا دیتا ہے جس سے موت واقع ہوجاتی ہے۔ بعض مریضوں میں دل کے پٹھے اس قدر کمزور ہو جاتے ہیں کہ وہ خون کو پوری طرح سے دل سے نہیں نکال سکتے۔ جس کی وجہ سے خون دل سے نکلتا نہیں اور مزید خود دل میں آتا رہتا ہے اور دل پھول ہوا محسوس ہوتا ہے اس کا نام "کنجیسٹو ہارٹ فیلئیر" ہے۔ ایسی حالت میں ایسی دوائیں استعمال میں لائی جاتی ہیں مگر ان کے زہریلے اثرات ان مریضوں میں بھی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ نوٹ: کوئی بھی دوائی یا ٹوِٹکا خود سے نہ لیں۔ موت واقع ہو سکتی ہے۔
پودا نمبر 11
یہ پودا اپنی خشک حالت میں مکہ اور مدینہ کی تمام دوکانوں پر ملے گا۔ اگر آپ اس کے بارے میں نہیں جانتے اور دوکاندار سے پوچھیں تو وہ اس کا نام "مریم کی بوٹی" بتائے گا۔ پہلے تو یہ مذاق لگتا ہے مگر لٹریچر کو دیکھیں تو اس کا مقامی نام یہی ہے ۔ لوگ اس کو دواکے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ واللہ علم بالصواب۔ اس پودے کی ایک خوبی یہ ہے کہ جب یہ سوکھ جاتا ہے تو تمام شاخیں اندر کی طرف مڑ کر پودے کو ایک گیند نما شکل دے دیتی ہیں۔ بارش برسنے پر وہ دوبارہ سیدھی ہو جاتی ہیں۔ اگر اس کو خشک حالت میں پانی میں ڈبویا جائے تو ایسا ہی کرتا ہے۔ یہ عمل کئی بار دھرایا جاسکتا ہے۔
پودا نمبر 12
یہ پودا پودینہ، لیونڈر،نیازبو اور تلسی کے خاندان سے ہے۔ یہ خاندان خوشبودار جڑی بوٹیوں کا خاندان کہاجاسکتاہے۔ نیچےوالی تصویر نیاز بو یا تلسی کے پودے کی ہے۔ ان پودوں کے پھول سفید ہوتے ہیں۔ اس پودے کی تصویر سقیفہ بنی ساعد ۃ" میں اتاری گئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ باقی کی جگہوں پر بھی اس کو کاشت کیا جاتا ہوں۔
پاکستان میں پودینے کی چٹنی بنائی جاتی ہے۔ اسی طرح باقی کے پودوں کے مختلف استعمال ہیں۔
پودا نمبر 13
پودا نمبر 7
پام کے درخت مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے ساتھ ایک پارک میں موجود ہیں ۔اس پارک کا نام" سقیفہ بنی ساعد ۃ" ہے۔ سقیفہ بنی ساعدہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں مدینہ کی ، ، وہ عمارت تھی جہاں قبیلہ "بنی ساعدہ بنو خزرجیۃ" اپنے اجلاس کیا کرتا تھا۔ "سقیفہ" اس چوپال کو کہتے ہیں جہاں گاوں محلے کے لوگوں کی بیٹھک لگتی ہے۔سقیفہ بنو ساعدہ کے شمال میں ایک کنواں بئر بضاعۃ کے نام سے مشہور تھا۔ اس جگہ کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ یہی پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیِ عنہ کو خلیفہ چنا گیا تھا۔
اس پارک میں ان دونوں طرح کے پام کے درخت کی قطاریں ہیں۔ ہر قطار میں دونوں طرح کے درخت موجود ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام "واشنگٹونیا روبسٹا" ہے۔ بہت قدآور درخت ہے۔ اس کا تنا پرانے پتوں کے اترنے کے بعد ہموار ہو جاتا ہے۔ تیسری خوبی یہ ہے کہ پرانے پتے خشک ہونے کے بعد فورارنہیں جھڑ جاتے بلکہ کچھ عرصہ تک سبز پتوں کے نیچے ہی لٹکے رہتے ہیں۔
Washingtonia robusta |
دوسری طرح کا پام درج بالا پام کے درخت سے ذرا چھوٹاہوتا ہے۔ اسکا تنا کھجورکے درخت کی طرح کا ہوتا ہے یعنی ناہموار۔ پرانے پتوں کی ڈنڈیوں کے سرے تنے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں اور پتہ اتر جاتا ہے۔ تیسرا یہ پام اکثر اپنے تنے سے دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس طرح یہ پام منفرد ہوجاتاہے۔یہ پام خشک علاقوں میں خوب پھلتا پھولتاہے۔
Hyphaene thebaica
|
Phoenix dactylifera |
Hyphaene thebaica fruit |
پودا نمبر 9
یہ آ رائیشی بیل تقریباہر ملک میںاگائی جاتی ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے اسکے پھول جب کھلتے ہیں تو سفید ہوتے ہیں اور بعد میں اپنا رنگ بتدریج بدلتے ہیں اور گلابی ہو جاتے ہیں۔ ایسا غالبا درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پھول خوشبودار بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر دیکھا جاتا ہے۔
Quisqualis indica Withering Flowers |
Quisqualis indica Flowers White and Pink |
اس پودے کا اردو میں نام "آک" ہے۔ اس کی نئی شاخوں پر سفید روئیں ہوتی ہیں اس لئے عام زبان میں انگریزی میں اس کو"کاپوک ٹری" بھی کہتے ہیں۔ لفظ "کاپوک" ہر اس پودے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس پر سفید روئیں ہوں مثلا اوپر "اروا جوانیکا" کو بھی عام زبان میں "کاپوک بش" کہتے ہیں۔ مگر "آک" کا پودا زہریلا پودا ہے۔ اس کے اندر زہریلا دودھیا پانی ہوتا ہے۔ ا مثلا لوگ جانوروں کا شکار کرنے کے لئے اپنے تیروں پر اس کے زہر کو اسعتعمال کرت تھے۔ اس کا زہر دل کی رفتار کو بڑھا دیتا ہے جس سے موت واقع ہوجاتی ہے۔ بعض مریضوں میں دل کے پٹھے اس قدر کمزور ہو جاتے ہیں کہ وہ خون کو پوری طرح سے دل سے نہیں نکال سکتے۔ جس کی وجہ سے خون دل سے نکلتا نہیں اور مزید خود دل میں آتا رہتا ہے اور دل پھول ہوا محسوس ہوتا ہے اس کا نام "کنجیسٹو ہارٹ فیلئیر" ہے۔ ایسی حالت میں ایسی دوائیں استعمال میں لائی جاتی ہیں مگر ان کے زہریلے اثرات ان مریضوں میں بھی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ نوٹ: کوئی بھی دوائی یا ٹوِٹکا خود سے نہ لیں۔ موت واقع ہو سکتی ہے۔
Calotropis procera Plant
|
Calotropis procera Flowers |
Calotropis procera Fruit |
یہ پودا اپنی خشک حالت میں مکہ اور مدینہ کی تمام دوکانوں پر ملے گا۔ اگر آپ اس کے بارے میں نہیں جانتے اور دوکاندار سے پوچھیں تو وہ اس کا نام "مریم کی بوٹی" بتائے گا۔ پہلے تو یہ مذاق لگتا ہے مگر لٹریچر کو دیکھیں تو اس کا مقامی نام یہی ہے ۔ لوگ اس کو دواکے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ واللہ علم بالصواب۔ اس پودے کی ایک خوبی یہ ہے کہ جب یہ سوکھ جاتا ہے تو تمام شاخیں اندر کی طرف مڑ کر پودے کو ایک گیند نما شکل دے دیتی ہیں۔ بارش برسنے پر وہ دوبارہ سیدھی ہو جاتی ہیں۔ اگر اس کو خشک حالت میں پانی میں ڈبویا جائے تو ایسا ہی کرتا ہے۔ یہ عمل کئی بار دھرایا جاسکتا ہے۔
Anastatica hierochuntica |
پودا نمبر 12
یہ پودا پودینہ، لیونڈر،نیازبو اور تلسی کے خاندان سے ہے۔ یہ خاندان خوشبودار جڑی بوٹیوں کا خاندان کہاجاسکتاہے۔ نیچےوالی تصویر نیاز بو یا تلسی کے پودے کی ہے۔ ان پودوں کے پھول سفید ہوتے ہیں۔ اس پودے کی تصویر سقیفہ بنی ساعد ۃ" میں اتاری گئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ باقی کی جگہوں پر بھی اس کو کاشت کیا جاتا ہوں۔
Ocimum spp. |
پودا نمبر 13
لینٹانا کمارا ایک ایسی جھاڑی ہے جو کہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔ اسلام آباد پر مارگلہ کی پہاڑیوں پر بکثرت پائی جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ دوسری انواع کے پودوں کو روک کر ان کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ اس کا نقصان ہے۔ مگر اس کے پھول تتلیوں کو بہت پسند ہیں۔
سقیفہ بنی ساعد ۃ میں یہ خوبصورت پھول موجود تھے۔
سقیفہ بنی ساعد ۃ میں یہ خوبصورت پھول موجود تھے۔
Lantana camara |
پودا 14
یہ پودا ایک کانٹے دار درخت ہے۔ پاکستان میں بھی بنجر ، ویران اور خشک علاقوں میں پایا جاتا ہے۔عربی میں اس کو "سدر"،"سادر"،"نبق" وغیرہ کہتے ہیں۔ اس درخت سے تین فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا پھل غذائیت سے بھر پور ہے۔ اس کے پھولوں سے بننے والا شہد اپنی علیحدہ تاثیر رکھتا ہے۔ اس کا اپنا ذائقہ اور اپنی خوشبو ہے۔ اس سے بنجر اور بے آباد زمینوں میں شجر کاری کی جاتی ہے۔ اسکے کانٹوں کیوجہ سے اس کو "باڑ" کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مکہ اور مدینہ میں عام پایا جاتا ہے۔ یہ ان چند پودوں میں سے ہے جن کا اصلی وطن عرب کی زمین ہے اور یہ آج بھی درآمد کئے گئے پودوں میں موجود ہیں۔
اردو میں اس کو بیری کا درخت کہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ بے آباد زمینوں میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی لوگ اس کا پھل کھاتے ہیں۔
عیسائی عقائد کے مطابق جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیاتو اس وقت ایک کانٹے دار جھاڑی کا تاج بھی پہنایا گیاتھا۔ سدر کا سائنسی نام اسی خیال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے مطابق آپ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا اور آپ کا ظہور قیامت کے نزدیک ہوگا۔
مسجد قبا مدینہ منورہ کے پاس دو بیری کے درخت موجود ہیں۔ ان پر چڑیوں کے کئی گھونسلے موجود ہیں۔ ایک گھونسلے پر ایک چڑیا اپنے گھونسلے کو بنانے میں مصروف تھی۔ شاَئد درخت کے کانٹے اس کو شکاریوں سے کسی قسم کا تحفظ دیتے ہوں؟
Ziziphus spina-christi |
اردو میں اس کو بیری کا درخت کہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ بے آباد زمینوں میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی لوگ اس کا پھل کھاتے ہیں۔
عیسائی عقائد کے مطابق جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیاتو اس وقت ایک کانٹے دار جھاڑی کا تاج بھی پہنایا گیاتھا۔ سدر کا سائنسی نام اسی خیال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے مطابق آپ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا اور آپ کا ظہور قیامت کے نزدیک ہوگا۔
مسجد قبا مدینہ منورہ کے پاس دو بیری کے درخت موجود ہیں۔ ان پر چڑیوں کے کئی گھونسلے موجود ہیں۔ ایک گھونسلے پر ایک چڑیا اپنے گھونسلے کو بنانے میں مصروف تھی۔ شاَئد درخت کے کانٹے اس کو شکاریوں سے کسی قسم کا تحفظ دیتے ہوں؟
پودا نمبر 15
ایک اور پودا مدینہ میں اپنی بہار دکھا رہا تھا۔ اس کا نام مجھے معلوم نہ ہو سکا۔اگر آپ کو معلوم ہو تو ضرور مطلع کریں۔
ایک اور پودا مدینہ میں اپنی بہار دکھا رہا تھا۔ اس کا نام مجھے معلوم نہ ہو سکا۔اگر آپ کو معلوم ہو تو ضرور مطلع کریں۔
نامعلوم نوع |
پودا نمبر 16 اور 17
اس تصویر میں دو ایسے پودے دکھائی دے رہے ہیں جو کہ پاکستان میں بہت عام ہیں مگر آپ ان کو مدینہ منورہ میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
1. Sansevieria sp. 2. Bougainvillea sp. |
پودا نمبر 18 اور 19
گھاس کی یہ دو انواع کے پھول بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اگر یہ دونوں انواع ساتھ ساتھ نہ اگ رہی ہوتیں تو ایک ہی طرح گھاس دکھائی دیتیں۔ اسی لئے گھاسوں کی شناخت ایک مشکل کام ہے اور اس کے لئے ان کے باریک باریک پھولوں کو خوردبین سے دیکھنا پڑتا ہے۔
گھاس کی دو انواع۔۔۔نام نامعلوم۔ |
ختم شد
Very informative and interesting
ReplyDelete